Thursday, May 1, 2014

Saturday, January 2, 2010

خواتین کے خلاف تشدد اسلام کا شیوہ نہیں


نازش یار خان


گلین ڈیل ہائیٹس، ایلی نوئیس: ایک دِن ریڈیو پر افغانستان میں بڑی تعداد میں عورتوں کی عصمت دری کے واقعات کے بارے میں اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی رپورٹ سُن کر میں ششدر رہ گئی۔ ایک ایسی مسلمان عورت کی حیثیت سے جو یہ جانتی ہو کہ اُس کے مذہب کی بنیاد انصاف اور رحم دلی پر ہے، میں نے خود سے سوال کیا کہ ایسے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والے مسلم عقیدےاور انسانیت کے بنیادی اصولوں سے کس طرح اتنی دور بھٹک جاتے ہیں؟

یہ نظریہ کہ رحم دلی، ہمدردی اور انصاف اسلام کا طرّہ امتیاز ہیں اور یہ کہ اس میں عورتوں کے ساتھ برتاؤ کا انداز بھی شامل ہے، اکثر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ افسوسنا ک بات یہ ہے کہ بعض آیات کی غلط تعبیر کرتے ہوئے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ عورتوں پر جبر بلکہ تشدد کرنے تک کی بھی اجازت دیتی ہیں۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح مرد اور عورت ایک دوسرے سے منسلک ہیں، : " مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ حُکم دیتے ہیں بھلائی کا، اور منع کرتے ہیں بُرائی سے۔۔۔۔ (قرآن 9:71 )۔ لیکن بعض آیات کو عورتوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک کے حق میں غلط طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر: "تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، سو، جاؤ اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو ۔۔۔ (قرآن 2:223 )۔ اس آیت کی بعض لوگ اس طرح تشریح کرتے ہیں جیسے اس سے مرد کو عورت کے بدن کا لائسنس مِل گیا ہے۔

یہ سمجھنے کے لئے کہ اس آیت کا حقیقی مطلب کیا ہے، میں نے ڈاکٹر ماہر ہیتھاؤٹ سے رابطہ کیا جو مسلم پبلک افیئرز کونسل میں سینئر مشیر ہیں اور اسلام کے موضوع پر ماہر مانی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا " یہ باعثِ شرم اور مضحکہ خیز بات ہے کہ اس آیت کی تشریح اسِ طرح کی جاتی ہے جس سے اس کا مطلب اس کے حقیقی مفہوم کے بالکل برعکس ہو جاتا ہے۔ اس آیت کا مطلب ہے کہ شریکِ حیات کے ساتھ تعلقات باہمی رضامندی سے ہونے چاہئیں اور ان کے نتائج چاہے اولاد کی صورت میں ہوں یا جذباتی قربت کی شکل میں، اچھے ہونے چاہئیں۔"

تو پھر اِس آیت اور اس طرح کی دیگر آیات کے مطالب کے بارے میں اتنا اختلافِ رائے کیوں پایا جاتا ہے؟ ڈاکٹر ہیتھاؤٹ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا "آیات کا ترجمہ کرتے وقت سماجی عوامل کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا تھا۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ کوئی شخص ایک سے زیادہ معانی رکھنے والے الفاظ کی تشریح کس طرح کرتا ہے۔ ایسے معاشروں میں جہاں عورتوں کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھنا قابلِ قبول تھا، اُنہوں نے وہ معانی اخذ کئے جو اُن کے لئے ساز گار تھے، حالانکہ دیگر مطالب بھی ممکن تھے۔ تاہم آج کل ہمیں مختلف معانی ڈھونڈنے اور آیات کو مختلف انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔"

عورتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے جن آیات کی اکثر و بیشتر غلط تشریح کی جاتی ہے ان کے ساتھ معاملہ کرتے وقت ہمیں قرآن کو حضرت محمد ﷺ کی سُنّت اور آیات کے مخصوص تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے سمجھنا چاہیے۔ ڈاکٹر ہیتھاؤٹ نے کہا "ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ نے بیویاں تو دور کی بات، کِسی پر بھی کبھی ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا۔"

مسلم گھرانوں اور مسلم معاشروں میں عورتوں پر تشدد کے واقعات مذہب سے لاعلمی یا اسلام کی بنیادی تعلیمات - احترام، ہمدردی، انصاف اور رحم دلی - سے جان بوجھ کر انحراف کی پیداوار ہیں۔ ہمیں جو کام بہر صورت کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی ان بنیادی خصوصیات کا بھرپور مطالعہ کرتے ہوئے یہ سمجھیں کہ ان اصولوں کا عورتوں پر بھی اتنا ہی اطلاق ہوتا ہے جتنا کہ مردوں پر۔

ہر روز مرکزی دھارے میں شامل مسلمان اسلام کے بارے میں دقیانوسی اور غلط تصوّرات سے نمٹتے نظر آتے ہیں۔ ان میں وہ تصوّرات خاص طور پر زیادہ پریشان کُن ہیں جو انتہاپسندوں کی چھوٹی سے اقلیت نے پھیلائے ہیں جو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے، چاہے وہ مقصد معصوم شہریوں کو بم سے اُڑانا ہو یا اپنے ہی گھروں میں موجود افراد پر تشدد کرنا، مذہب کے بعض پہلوؤں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔

تاہم بڑی تبدیلی کا آغاز اکثر ایک مضبوط آواز سے ہوتا ہے۔ اگر وہ آواز مقامی ہو، تو یہ مزید بہتر ہے۔ مقامی عورتوں کی زیرِ قیادت چلنے والی تنظیم افغانستان کی خواتین کی انقلابی ایسوسی ایشن (آر اے ڈبلیو اے) ایسی ہی ایک آواز ہے۔ اس کی قیادت کرنے والی خواتین ہر روز اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر گھریلو تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے میں افغان خواتین کی مدد کرتی ہیں۔

عام مسلمان مرد اور عورتیں جتنی بڑی تعداد میں خواتین پر تشدد کے خلاف آواز بلند کریں گے اور لوگوں کو یہ یاد دہانی کرائیں گے کہ اسلام اور قرآن انصاف اور رحم دلی کا پرچار کرتے ہیں، اتنی ہی جلدی ہم اپنی کتابِ مقدّس کی غلط تشریحات کو درست کر سکیں گے۔

اِس وقت دنیا پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے بدل رہی ہے۔ اطلاعات ومعلومات کے اس دور نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ غلط کاریاں زیادہ دیر نظروں سے اوجھل نہ رہیں اور جو ان گھناؤنے کاموں کے خلاف بات کرنا چاہتے ہیں انہیں ایک بڑا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے جہاں سے ان کی آواز سُنی جاتی ہے۔ یہ جنگ بہت زوروں پر ہے اور اسے جیتنے کی امید رکھنے کا یہی وقت ہے۔